Wednesday, 18 October 2017

یہ نوازش جو اشارے کی نکل آئی ہے

یہ نوازش جو اشارے کی نکل آئی ہے
کوئی صورت تو گزارے کی نکل آئی ہے
وہ مجھے دیکھ لیا کرتا ہے گاہے گاہے
آس کیا کیا نہ سہارے کی نکل آئی ہے
نیند کر دے نہ کہیں مشرق و مغرب کی حرام
چیخ اک درد کے مارے کی نکل آئی ہے
برف زادے ہیں مقامات مقدس کے حریف
آزمائش بھی شرارے کی نکل آئی ہے
آسماں سونپ دیا اس نے زمیں کے بدلے
پا بہ جائی یہ خسارے کی نکل آئی ہے
بھول بیٹھے تھے بہت، پھول بہت بیٹھے تھے
اب ہوا ان کے غبارے کی نکل آئی ہے
ہم نے تو پھول کھلانے کی بہت کوشش کی
راہداری تِری گارے کی نکل آئی ہے
کاش اے خیرؔ وہ تخلیق ہماری ہوتی
جان جو سارے شمارے کی نکل آئی ہے

رؤف خیر

No comments:

Post a Comment