یہ نوازش جو اشارے کی نکل آئی ہے
کوئی صورت تو گزارے کی نکل آئی ہے
وہ مجھے دیکھ لیا کرتا ہے گاہے گاہے
آس کیا کیا نہ سہارے کی نکل آئی ہے
نیند کر دے نہ کہیں مشرق و مغرب کی حرام
برف زادے ہیں مقامات مقدس کے حریف
آزمائش بھی شرارے کی نکل آئی ہے
آسماں سونپ دیا اس نے زمیں کے بدلے
پا بہ جائی یہ خسارے کی نکل آئی ہے
بھول بیٹھے تھے بہت، پھول بہت بیٹھے تھے
اب ہوا ان کے غبارے کی نکل آئی ہے
ہم نے تو پھول کھلانے کی بہت کوشش کی
راہداری تِری گارے کی نکل آئی ہے
کاش اے خیرؔ وہ تخلیق ہماری ہوتی
جان جو سارے شمارے کی نکل آئی ہے
رؤف خیر
No comments:
Post a Comment