اترنے والی دکھوں کی برات سے پہلے
چراغ بانٹ دو بستی میں رات سے پہلے
یوں ہی ملے گا نہ آب حیات کا چشمہ
گزرنا ہوگا لہو کی فرات سے پہلے
بشر جو آج ہے تہذیب و ارتقا کا امیں
فقط درندہ تھا عرفان ذات سے پہلے
ہمی نے موت کی تردید میں زباں کھولی
ہمیں نے پیار کیا ہے حیات سے پہلے
وہاں تو بات بھی کرنا جہاد کرنا ہے
جہاں پہ ہونٹ سیے جائیں بات سے پہلے
نئی حیات حزیںؔ فن کو دے گیا غالبؔ
اگرچہ مر گیا تھا وہ وفات سے پہلے
حزیں لدھیانوی
چراغ بانٹ دو بستی میں رات سے پہلے
یوں ہی ملے گا نہ آب حیات کا چشمہ
گزرنا ہوگا لہو کی فرات سے پہلے
بشر جو آج ہے تہذیب و ارتقا کا امیں
فقط درندہ تھا عرفان ذات سے پہلے
ہمی نے موت کی تردید میں زباں کھولی
ہمیں نے پیار کیا ہے حیات سے پہلے
وہاں تو بات بھی کرنا جہاد کرنا ہے
جہاں پہ ہونٹ سیے جائیں بات سے پہلے
نئی حیات حزیںؔ فن کو دے گیا غالبؔ
اگرچہ مر گیا تھا وہ وفات سے پہلے
حزیں لدھیانوی
No comments:
Post a Comment