Friday 20 October 2017

اترنے والی دکھوں کی برات سے پہلے

اترنے والی دکھوں کی برات سے پہلے
چراغ بانٹ دو بستی میں رات سے پہلے
یوں ہی ملے گا نہ آب حیات کا چشمہ
گزرنا ہوگا لہو کی فرات سے پہلے
بشر جو آج ہے تہذیب و ارتقا کا امیں
فقط درندہ تھا عرفان ذات سے پہلے
ہمی نے موت کی تردید میں زباں کھولی
ہمیں نے پیار کیا ہے حیات سے پہلے
وہاں تو بات بھی کرنا جہاد کرنا ہے
جہاں پہ ہونٹ سیے جائیں بات سے پہلے
نئی حیات حزیںؔ فن کو دے گیا غالبؔ
اگرچہ مر گیا تھا وہ وفات سے پہلے

حزیں لدھیانوی

No comments:

Post a Comment