Wednesday 18 October 2017

غبار تھا غبار بھی نہیں رہا

غبار تھا، غبار بھی نہیں رہا
خدا کا انتظار بھی نہیں رہا
یہ دل تو اس کا نام کا پڑاؤ ہے
جہاں وہ ایک بار بھی نہیں رہا
فلک سے واسطہ پڑا کچھ اس طرح
زمیں کا اعتبار بھی نہیں رہا
یہ رنج اپنی اصل شکل میں ہے دوست
کہ میں اسے سنوار بھی نہیں رہا
یہ وقت بھی گزر نہیں رہا ہے اور
میں خود اسے گزار بھی نہیں رہا
گئے دنوں کے دشت میں کمال تھے
اب ایسا اک دیار بھی نہیں رہا

ادریس بابر

No comments:

Post a Comment