Wednesday 18 October 2017

کبھی سفر سے کبھی اپنے گھر سے لکھتے ہیں

کبھی سفر سے، کبھی اپنے گھر سے لکھتے ہیں
وہ خط بھی لکھیں تو اب مختصر سے لکھتے ہیں
انہیں عجیب سا چسکا ہے لکھنے پڑھنے کا
تمام لوحِ بدن پر نظر سے لکھتے ہیں
عجب پرندے ہیں اوراق آسمانی پر
حکایتِ دل و جاں بال و پر سے لکھتے ہیں
جو بولنا ہے بہر حال بولتے ہیں، مگر
علامتوں میں زمانے کے ڈر سے لکھتے ہیں
قلم میں خون ہے، لیکن قلم پہ خون نہیں
کہ لکھنے والے بڑے ہی ہنر سے لکھتے ہیں
کوئی مذاق نہیں، دشمنوں کے سینوں پر
ہم اپنا نام بھی تیر و تبر سے لکھتے ہیں
جو خانقاہ کے قائل نہ بارگاہوں کے
قصیدے وہ تِری چوکھٹ پہ سر سے لکھتے ہیں
وہ خط ہی خیرؔ ہمارا کہاں پہنچا ہے
جب ان کے واسطے ہم کتنا ترسے لکھتے ہیں

رؤف خیر

No comments:

Post a Comment