بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی
وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی
سنگ پر سنگ ہر اک کوچہ میں کھائے تو سہی
پر بلا سے ترے دیوانے کھائے تو سہی
گو جنازے پہ نہیں قبر پہ آئے وہ مری
کیونکہ دیوار پہ چڑھ جاؤں کوئی کہتا ہے
پاؤں کاٹوں گا انگوٹھا وہ جمائے تو سہی
پارۂ مصحف دل تھے ترے کوچہ میں پڑے
آتے پاؤں کے تلے شکر کہ پائے تو سہی
صاف بے پردہ نہیں ہوتا وہ غرفہ میں نہ ہو
روزن در سے کبھی آنکھ لڑائے تو سہی
گہ بڑھاتا ہے گہے مہ کو گھٹاتا ہے فلک
پر شب ہجر کو ہم دیکھیں گھٹائے تو سہی
کروں اک نالے سے میں حشر میں برپا سو حشر
شور محشر مجھے سوتے سے جگائے تو سہی
گر پڑے تھے کئی اس کوچے میں دل کے ٹکڑے
آتے پاؤں کے تلے شکر کہ پائے تو سہی
تھے تمہیں نکلے جو اس دام بلا سے اے ذوقؔ
ورنہ تھے پیچ میں اس زلف کے آئے تو سہی
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment