Thursday 19 October 2017

بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی

بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی 
وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی 
سنگ پر سنگ ہر اک کوچہ میں کھائے تو سہی 
پر بلا سے ترے دیوانے کھائے تو سہی 
گو جنازے پہ نہیں قبر پہ آئے وہ مری 
شکوہ کیا کیجے غنیمت ہے کہ آئے تو سہی 
کیونکہ دیوار پہ چڑھ جاؤں کوئی کہتا ہے 
پاؤں کاٹوں گا انگوٹھا وہ جمائے تو سہی 
پارۂ مصحف دل تھے ترے کوچہ میں پڑے 
آتے پاؤں کے تلے شکر کہ پائے تو سہی 
صاف بے پردہ نہیں ہوتا وہ غرفہ میں نہ ہو 
روزن در سے کبھی آنکھ لڑائے تو سہی 
گہ بڑھاتا ہے گہے مہ کو گھٹاتا ہے فلک 
پر شب ہجر کو ہم دیکھیں گھٹائے تو سہی 
کروں اک نالے سے میں حشر میں برپا سو حشر 
شور محشر مجھے سوتے سے جگائے تو سہی 
گر پڑے تھے کئی اس کوچے میں دل کے ٹکڑے 
آتے پاؤں کے تلے شکر کہ پائے تو سہی 
تھے تمہیں نکلے جو اس دام بلا سے اے ذوقؔ 
ورنہ تھے پیچ میں اس زلف کے آئے تو سہی

ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment