Sunday, 22 October 2017

میری جان لینے والے ترا دم نکل نہ جائے

میری جان لینے والے تِرا دم نکل نہ جائے
میرا عشق تو جواں ہے تِرا حسن ڈھل نہ جائے
مِرے حال پر کرم کر مِری زندگی کے داتا
تِرا نام لیتے لیتے مِرا دم نکل نہ جائے
نہیں خوف بجلیوں کا مجھے ڈر جو ہے تو یہ ہے
سرِ بزم بے ارادہ مِرا دل مچل نہ جائے
تری جستجو میں گم ہوں تِری یاد میں مگن ہوں
کہیں شامِ غم سے پہلے مِری صبح ڈھل نہ جائے
یہ زمانہ لاکھ بدلے اگر اپنا رخ تو کیا ہے
اے مِرے ندیم! لیکن تِرا رخ بدل نہ جائے
یہی آرزو ہے یا رب دلِ غمزدہ کی میری
یہ بلائے زندگانی مِرے سر سے ٹل نہ جائے
ہے بہار رقص فرما مِری کاوشِ نظر پر
کہیں گرتے گرتے میکؔش کوئی پھر سنبھل نہ جائے

میکش ناگپوری

No comments:

Post a Comment