Sunday 22 October 2017

حیات کھینچ کے لے آئی ہے کہاں مجھ کو

حیات کھینچ کے لے آئی ہے کہاں مجھ کو
سنا رہا ہے وہ میری ہی داستاں مجھ کو
توجہ دی نہ کبھی اس کی بات پر میں نے
بنانا چاہا کئی بار راز داں مجھ کو
کسی کی شکل کسی کو نظر نہیں آتی
تمام شہر لگے ہے دھواں دھواں مجھ کو
بہت سے چاند ستارے وہاں پہ روشن ہیں
زمینِ دوست بھی لگتی ہے آسماں مجھ کو
ابھی سے تھک کے میں بیٹھوں یہ ہو نہیں سکتا
ابھی تو اور بھی دینا ہے امتحاں مجھ کو
ستم شعار اندھیروں کو اپنے پاس رکھو
بلا رہا ہے اجالوں کا کارواں مجھ کو
زبان ہو کے بھی میں بے زبان ہوں میکشؔ
لہو رلائے ہے خود میرا مہرباں مجھ کو

میکش ناگپوری

No comments:

Post a Comment