حیات کھینچ کے لے آئی ہے کہاں مجھ کو
سنا رہا ہے وہ میری ہی داستاں مجھ کو
توجہ دی نہ کبھی اس کی بات پر میں نے
بنانا چاہا کئی بار راز داں مجھ کو
کسی کی شکل کسی کو نظر نہیں آتی
بہت سے چاند ستارے وہاں پہ روشن ہیں
زمینِ دوست بھی لگتی ہے آسماں مجھ کو
ابھی سے تھک کے میں بیٹھوں یہ ہو نہیں سکتا
ابھی تو اور بھی دینا ہے امتحاں مجھ کو
ستم شعار اندھیروں کو اپنے پاس رکھو
بلا رہا ہے اجالوں کا کارواں مجھ کو
زبان ہو کے بھی میں بے زبان ہوں میکشؔ
لہو رلائے ہے خود میرا مہرباں مجھ کو
میکش ناگپوری
No comments:
Post a Comment