جو جنوں اختیار کرتے ہیں
ہر ستم گر پہ وار کرتے ہیں
یہ نئی رُت کی آمد آمد ہے
پتے رقص بہار کرتے ہیں
سیڑھیوں میں رکا ہوا ہوں میں
پھول سے چہرے دودھ جیسے بدن
حسن یزداں شکار کرتے ہیں
مشعل گل ہمیں سے روشن ہے
گل ہمیں شمعیں وار کرتے ہیں
جھلے من والے چڑھتے دریا کو
کچی گاگر سے پار کرتے ہیں
غم کا پتھر بھی ہم کو پارس ہے
تیز لفظوں کی دھار کرتے ہیں
برف کی سل پہ وہ لٹائے گئے
راکھ کو جو شـرار کرتے ہیں
لاکھ زنجیر تم ہلاؤ حزیں
عدل کب تاجدار کرتے ہیں
حزیں لدھیانوی
No comments:
Post a Comment