کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے
اُن کا بندہ ہوں جو بندے ہیں محبت والے
چاہیں گر چارہ، جراحت کا محبت والے
بیچیں الماس و نمک سنگِ جراحت والے
گئے جنت میں اگر سوزِ محبت والے
صبحِ محشر کو بھی اٹھیں نہ ترے متوالے
ساقیا ہوں جو صبوحی کی نہ عادت والے
دخترِ رز کو نہیں چھیڑتے ہیں متوالے
حذر اس فاحشہ سے کرتے ہیں حرمت والے
رہے جوں شیشۂ ساعت وہ مکدّر دونوں
کبھی مل بھی گئے دو دل جو کدورت والے
کس مرض کی ہیں دوا یہ لبِ جاں بخش ترے
جاں بہ لب ہیں ترے آزارِ محبت والے
حرص کے پھیلتے ہیں پاؤں بہ قدرِ وسعت
تنگ ہی رہتے ہیں دنیا میں فراغت والے
نہیں جز شمعِ مجاور مری بالینِ مزار
نہیں جز کثرتِ پروانہ زیارت والے
ہارے رے حسرتِ دیوار مری ہائے کو بھی
لکھتے ہیں ھائے دو چشمی سے کتابت والے
نہ شکایت ہے کرم کی، نہ ستم کی خواہش
دیکھ تو، ہم بھی ہیں کیا صبر و قناعت والے
کیا تماشا ہے کہ مثلِ مہِ نو اپنا فروغ
جانتے اپنی حقارت کو ہیں شہرت والے
دل سے کچھ کہتا ہوں میں، مجھ سے ہے کچھ کہتا دل
دونوں اِک حال میں ہیں رنج و مصیبت والے
تو گر آ جائے تو اے دردِ محبت کی دوا
مرے ہم درد ہوں بے درد فضیحت والے
چھوڑ دیتے ہیں قلم جوں قلمِ آتش باز
مری شرحِ تپشِ دل کی کتابت والے
کبھی افسوس ہے آتا، کبھی رونا آتا
دلِ بیمار کے ہیں دو ہی عیادت والے
تو مرے حال سے غافل ہے پر اے غفلت کیش
تیرے اندازِ تغافل نہیں غفلت والے
ہم نے دیکھا ہے جو اس بت میں، نہیں کہہ سکتے
کہ مبادا کہیں سن پائیں شریعت والے
ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوقؔ
اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment