مِرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے
اب مجھے خود سے نکلنے کی اجازت دی جائے
موت سے مل لیں کسی گوشۂ تنہائی میں
زندگی سے جو کسی دن ہمیں فرصت دی جائے
بے خد و خال سا اک چہرہ لیے پھرتا ہوں
بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود
شرط یہ ہے کہ مِری خاک کی قیمت دی جائے
بس کہ دنیا مِری آنکھوں میں سما جائے گی
کوئی دن اور مِرے خواب کو مہلت دی جائے
سالم سلیم
No comments:
Post a Comment