Friday, 20 October 2017

کیا گل کھلائے دیکھئے تپتی ہوئی ہوا

کیا گل کھلائے دیکھیے تپتی ہوئی ہوا 
مسموم ہو گئی ہے مہکتی ہوئی ہوا 
یہ چیتھڑوں میں پھول یہ سرگرمِ کار لوگ 
یہ دوپہر کی دھوپ یہ جلتی ہوئی ہوا 
زندہ وہی رہے گا جسے ہو شعورِ زیست 
کہتی ہے روز رنگ بدلتی ہوئی ہوا 
بادل گھرے تو اور بھی شعلہ فشاں ہوئی 
پھولوں کی پتیوں کو جھلستی ہوئی ہوا 
طوفان گرد و باد سے سنولا نہ جائیں لوگ 
پھر رک گئی ہے شہر میں چلتی ہوئی ہوا 
کمہلا نہ جائے گلشنِ شام و سحر حزیں 
مدت سے چل رہی ہے سلگتی ہوئی ہوا 

حزیں لدھیانوی

No comments:

Post a Comment