Friday, 20 October 2017

چھپ گیا یار خود نما ہو کر

چھپ گیا یار خود نما ہو کر 
رہ گئی چشمِ شوق وا ہو کر 
بیقراروں سے ان کو شرم آئی 
شوخیاں رہ گئیں حیا ہو کر 
کیا کہوں کیا ہے میرے دل کی خوشی 
تم چلے جاؤ گے خفا ہو کر 
روٹھ کر ان سے ہم کہاں جیتیں 
وہ منا لیتے ہیں، خفا ہو کر 
پھنس گیا دل تو چھوڑ دو ہم کو 
اب کہاں جائیں گے رہا ہو کر 
دل سے کچھ کہہ رہی ہیں وہ آنکھیں 
دیکھیں کیا ٹھہرے مشورا ہو کر 
ہاتھ اٹھا کر تلاش دل سے حسنؔ 
بیٹھ رہئے شکستہ پا ہو کر 

حسن رضا بریلوی

No comments:

Post a Comment