تم گل تھے ہم نکھار، ابھی کل کی بات ہے
ہم سے تھی سب بہار، ابھی کل کی بات ہے
بے گانہ سمجھو، غیر کہو، اجنبی کہو
اپنوں میں تھا شمار، ابھی کل کی بات ہے
آج اپنے پاس سے ہمیں رکھتے ہو دُور دُور
اِترا رہے ہو آج پہن کر نئی قبا
دامن تھا تار تار، ابھی کل کی بات ہے
آج اس قدر غرور یہ انداز یہ مزاج
پھرتے تھے میر خوار، ابھی کل کی بات ہے
انجان بن کے پوچھتے ہو ہے یہ کب کی بات
کل کی ہے بات یار، ابھی کل کی بات ہے
کلیم عاجز
No comments:
Post a Comment