کس طرح نالہ کرے بلبل چمن کی یاد میں
گھس گئی اس کی زباں تو شکوۂ صیاد میں
داد خواہوں کی اگر پرسش ہوئی روز جزا
سب سے پہلے آئیں گے ہم عرصۂ فریاد میں
کیا لپٹ جائیں تِرا قامت سمجھ کر اس کو ہم
کام معشوقوں سے بھی عاشق کے لیتا ہے یہ عشق
کیوں نہ شیریں جان دے اپنی غم فرہاد میں
دامن دل اے نسیم گلشن جنت نہ کھینچ
لگ گیا ہے جی ہمارا اس خراب آباد میں
حشر تک بھی کھینچ نہیں سکنے کی صورت یار کی
گر یونہی حجت رہے گی مانی و بہزاد میں
کوچۂ جاناں میں یارو کون سنتا ہے مری
مجھ سے واں پھرتے ہیں لاکھوں داد اور بیداد میں
شعر کہنا آپ سے غافلؔ کبھی آتا نہیں
عمر اک جب تک نہ کھوئی خدمت استاد میں
منور خان غافل
No comments:
Post a Comment