کم کم رہا وہ پاس، اور اکثر بہت ہی دور
اک چاند سا کہیں تھا افق پر بہت ہی دور
اے آبجو! سنبھل تو ذرا دم نہ ٹوٹ جائے
دریا ہے دور، اور سمندر بہت ہی دور
بس شام کینوس میں اترنے کی دیر ہو
آنکھیں ہیں بند، اور ہے دفتر کھلا ہوا
لاہور، یعنی جان برابر بہت ہی دور
ادریس بابر
No comments:
Post a Comment