Wednesday 18 October 2017

کم کم رہا وہ پاس اور اکثر بہت ہی دور

کم کم رہا وہ پاس، اور اکثر بہت ہی دور
اک چاند سا کہیں تھا افق پر بہت ہی دور
اے آبجو! سنبھل تو ذرا دم نہ ٹوٹ جائے
دریا ہے دور، اور سمندر بہت ہی دور
بس شام کینوس میں اترنے کی دیر ہو
دل ڈوبنے لگے کہیں اندر، بہت ہی دور
آنکھیں ہیں بند، اور ہے دفتر کھلا ہوا
لاہور، یعنی جان برابر بہت ہی دور

ادریس بابر

No comments:

Post a Comment