زباں پہ حرف تو انکار میں نہیں آتا
یہ مرحلہ ہی کبھی پیار میں نہیں آتا
کھلے گا ان پہ جو بین السطور پڑھتے ہیں
وہ حرف حرف جو اخبار میں نہیں آتا
سمجھنے والے یقیناً سمجھ ہی لیتے ہیں
یہ خاندان ہمارا بکھر گیا جب سے
مزہ ہمیں کسی تہوار میں نہیں آتا
ہمارے حق میں تو وہ چاند اور سورج ہے
بہت دنوں سے جو دیدار میں نہیں آتا
کمال یہ ہے کہ ہم خواب دیکھتے ہی نہیں
کہ خواب دیدۂ بیدار میں نہیں آتا
ہمارا شعر سمجھنے کی کچھ تو کوشش کر
یہ کیا نوشتۂ دیوار میں نہیں آتا؟
قلم کی کاٹ تو تلوار سے بھی بڑھ کر ہے
مگر شمار یہ ہتھیار میں نہیں آتا
وہ اپنا ذوق بڑھائیں اگر مزہ ان کو
رؤف خیرؔ کے اشعار میں نہیں آتا
رؤف خیر
No comments:
Post a Comment