Wednesday 18 October 2017

زباں پہ حرف تو انکار میں نہیں آتا

زباں پہ حرف تو انکار میں نہیں آتا 
یہ مرحلہ ہی کبھی پیار میں نہیں آتا 
کھلے گا ان پہ جو بین السطور پڑھتے ہیں 
وہ حرف حرف جو اخبار میں نہیں آتا 
سمجھنے والے یقیناً سمجھ ہی لیتے ہیں 
ہمارا درد جو اظہار میں نہیں آتا 
یہ خاندان ہمارا بکھر گیا جب سے 
مزہ ہمیں کسی تہوار میں نہیں آتا 
ہمارے حق میں تو وہ چاند اور سورج ہے 
بہت دنوں سے جو دیدار میں نہیں آتا 
کمال یہ ہے کہ ہم خواب دیکھتے ہی نہیں 
کہ خواب دیدۂ بیدار میں نہیں آتا 
ہمارا شعر سمجھنے کی کچھ تو کوشش کر 
یہ کیا نوشتۂ دیوار میں نہیں آتا؟ 
قلم کی کاٹ تو تلوار سے بھی بڑھ کر ہے 
مگر شمار یہ ہتھیار میں نہیں آتا 
وہ اپنا ذوق بڑھائیں اگر مزہ ان کو 
رؤف خیرؔ کے اشعار میں نہیں آتا 

رؤف خیر

No comments:

Post a Comment