Sunday 22 October 2017

درد کے سیپ میں پیدا ہوئی بیداری سی

درد کے سیپ میں پیدا ہوئی بیداری سی 
رات کی راکھ میں سلگی کوئی چنگاری سی 
دیکھیے شہر میں کب باد یقیں چلتی ہے 
کو بہ کو پھیلی ہے اوہام کی بیماری سی 
موت کا وار تو میں سہہ گیا ہنستے ہنستے 
زندگی تُو ہی کوئی چوٹ لگا کاری سی 
کیا سے کیا ہو گئی ماحول کی لو میں جل کر 
وہ جو لڑکی نظر آتی تھی بہت پیاری سی 
جتنے مفلس ہیں وہ ایک روز تونگر ہوں گے 
ایک افواہ سنی ہے مگر اخباری سی 

حزیں لدھیانوی

No comments:

Post a Comment