Sunday, 29 October 2017

سب سمجھتے ہیں کہ ہم کس کارواں کے لوگ ہیں

سب سمجھتے ہیں کہ ہم کس کارواں کے لوگ ہیں 
پھر بھی پوچھا جا رہا ہے، ہم کہاں کے لوگ ہیں 
ملتِ بیضا نے یہ سیکھا ہے صد ہا سال میں 
یہ یہاں کے لوگ ہیں اور وہ وہاں کے لوگ ہیں 
خالی پیمانے لیے بیٹھے ہیں رندانِ کرام 
مے کدہ ان کا ہے جو پیرِ مغاں کے لوگ ہیں 
ان سے مت پوچھو کہ منزل تم سے کیوں چھینی گئی 
ان کو مت چھیڑو یہ میرِ کارواں کے لوگ ہیں 
گل فروشی سے انہیں ہم روکنے والے ہیں کون 
ہم چمن کے لوگ ہیں، وہ باغباں کے لوگ ہیں 
اپنے دشمن سے ہمیں اقبالؔ کوئی ڈر نہیں 
ان سے بے شک خوف ہے جو درمیاں کے لوگ ہیں

اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment