Sunday 22 October 2017

نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال

نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال 
جسے نہ عشق ہو وہ جانے کیا ہمارا حال 
یقین ہے کہ کہیں گے وہ ہم صفیروں سے 
قفس میں دیکھ گئی ہے صبا ہمارا حال 
عجب ہے اس کا جو اب تک نہیں سنا اس نے 
فسانۂ سر بازار تھا ہمارا حال 
گلا یہی ہمیں قاصد سے ہے کہ اس گل کو 
نہ خط دیا نہ زبانی کہا ہمارا حال 
کبھی تو غش پہ غش آئے کبھی لگی ہچکی 
تِرے فراق میں کیا کیا ہوا ہمارا حال 
کہاں تلک نہ حیا دے گی رخصت گفتار 
کبھی تو پوچھے گا وہ مہ لقا ہمارا حال

منور خان غافل

No comments:

Post a Comment