نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال
جسے نہ عشق ہو وہ جانے کیا ہمارا حال
یقین ہے کہ کہیں گے وہ ہم صفیروں سے
قفس میں دیکھ گئی ہے صبا ہمارا حال
عجب ہے اس کا جو اب تک نہیں سنا اس نے
گلا یہی ہمیں قاصد سے ہے کہ اس گل کو
نہ خط دیا نہ زبانی کہا ہمارا حال
کبھی تو غش پہ غش آئے کبھی لگی ہچکی
تِرے فراق میں کیا کیا ہوا ہمارا حال
کہاں تلک نہ حیا دے گی رخصت گفتار
کبھی تو پوچھے گا وہ مہ لقا ہمارا حال
منور خان غافل
No comments:
Post a Comment