Wednesday 18 October 2017

شہر سے دور نیا شہر بسایا جائے

شہر سے دور نیا شہر بسایا جائے
ہوش والوں کو بھی مدھوش بنایا جائے
ایک ہی گھونٹ پلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
لطف تو جب ہے کہ جی بھر کے پلایا جائے
دور کرنے کے لیے تیرگیِ بزمِ حیات
اپنے سینے کا ہر اک داغ جلایا جائے
زیست کا فاصلہ اب موت سے کچھ دور نہیں
کسی ویرانے میں مۓ خانہ بنایا جائے
جس نے پھولوں کا لہو چوس لیا ہے یارو
ایسے مالی کو تو سولی پہ چڑھایا جائے
بعد کی بعد میں دیکھیں گے مگر اے میکشؔ
اور کچھ روز ابھی ڈھونگ رچایا جائے

میکش ناگپوری

No comments:

Post a Comment