Thursday 19 October 2017

چھٹ پنے ہی میں یار آفت ہے

چھٹ پنے ہی میں یار آفت ہے
کچھ بڑھا قد تو پھر قیامت ہے
ایک دل جس پہ لاکھ آفت ہے
درد ہی داغ ہے، جراحت ہے
کر نہ غفلت میں تُو بسر اس کو
ایک دو دم کی یہ جو مہلت ہے
مرگ پہ کیا کسی کی روئیں ہم
دل کے ماتم سے کس کو فرصت ہے
ناز و انداز یہ پری میں کہاں
ہم نے مانا وہ خوبصورت ہیں
پڑ گئے جسم پر نشانِ نگاہ
گل میں کب اس قدر نزاکت ہے
دمِ آخر نہ جاؤ بالیں سے
کر لو رخصت کہ وقتِ رخصت ہے

منور خان غافل

No comments:

Post a Comment