Monday 23 October 2017

خود نوید زندگی لائی قضا میرے لئے

خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے 
شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے 
زندگی میں تو نہ اک دم خوش کیا ہنس بول کر 
آج کیوں روتے ہیں میرے آشنا میرے لیے 
کنجِ عزلت میں مثال آسیا ہوں گوشہ گیر 
رزق پہنچاتا ہے گھر بیٹھے خدا میرے لیے 
تُو سراپا اجر اے زاہد! میں سرتا پا گناہ 
باغِ جنت تیری خاطر، کربلا میرے لیے 
نام روشن کر کے کیونکر بجھ نہ جاتا مثلِ شمع 
نا موافق تھی زمانہ کی ہوا میرے لیے 
ہر نفس آئینۂ دل سے یہ آتی ہے صدا 
خاک تو ہو جا تو حاصل ہو جلا میرے لیے 
خاک سے ہے خاک کو الفت تڑپتا ہوں انیسؔ 
کربلا کے واسطے میں کربلا میرے لیے 

میر انیس

No comments:

Post a Comment