Monday 23 October 2017

مرا راز دل آشکارا نہیں

مِرا رازِ دل آشکارا نہیں 
وہ دریا ہوں جس کا کنارا نہیں 
وہ گل ہوں جدا سب سے ہے جس کا رنگ 
وہ بو ہوں کہ جو آشکارا نہیں 
وہ پانی ہوں شیریں نہیں جس میں شور 
وہ آتش ہوں جس میں شرارا نہیں 
بہت زال دنیا نے دیں بازیاں 
میں وہ نوجواں ہوں جو ہارا نہیں 
جہنم سے ہم بے قراروں کو کیا 
جو آتش پہ ٹھہرے وہ پارا نہیں 
فقیروں کی مجلس ہے سب سے جدا 
امیروں کا یاں تک گزارا نہیں 
سکندر کی خاطر بھی ہے سد باب 
جو دارا بھی ہو تو مدارا نہیں 
کسی نے تِری طرح سے اے انیسؔ 
عروس سخن کو سنوارا نہیں 

میر انیس

No comments:

Post a Comment