ہجر لاحق ہے کہ ہجرت ہے مجھے
نیند میں چلنے کی عادت ہے مجھے
میں کسی وقت بھی مر سکتا ہوں
دوست! اندر سے محبت ہے مجھے
جا، جدائی کے سبب مت گنوا
کشتیاں خود ہی بناتا نہیں میں
ویسے دریا کی اجازت ہے مجھے
یہ بہت پہنچے ہوئے لگتے ہیں
ان درختوں سے عقیدت ہے مجھے
دھوپ سے ابر تلک، دیر ہے کچھ
پانی رنگوں کی ضرورت ہے مجھے
خود بھی کھا سکتا ہے خود کو آدم
یعنی حاصل یہ رعایت ہے مجھے
ادریس بابر
No comments:
Post a Comment