چوٹ گہری لگی، زخم آئے بہت
اب کے یوں تھا کہ ہم مسکرائے بہت
جس نے پردیس میں یاد رکھا مجھے
مجھ کو اس کا پتا بھول جائے بہت
ہر نئے عشق کا اپنا معیار تھا
جس میں شب بھر کو سونے کی فرصت ملے
ہم غریبوں کو بس وہ سرائے بہت
ایک تری یاد روشن رہی دیر تک
آندھیوں میں دیئے جھلملائے بہت
ایک تری دید کے شوق میں رات بھر
ہم سے الجھے دریچوں کے سائے بہت
اجنبی شہر کے ہر نئے موڑ پر
کچھ پرانے نگر یاد آئے بہت
عکس کوئی بھی ٹھہرا نہ محسنؔ کہیں
دائرے پانیوں پر بنائے بہت
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment