تیری راہوں میں بھٹکنے کے لیے زندہ ہوں
میں ازل سے ہی تِرے حُسن کا جویندہ ہوں
تیرے دل کی بھی نہ مل پائی مجھے شہریت
کس سے پوچھوں کہ میں کس ملک کا باشندہ ہوں
بھا گئے تھے تیری آنکھوں کے سمندر جن کو
دیکھنا ہے تو مجھے ایک نظر دیکھ ہی لے
صُبح کا تارا ہوں، لیکن ابھی تابندہ ہوں
کسی جُوڑے میں سجایا نہ گیا جو مجھ سے
میں قتیلؔ آج بھی اُس پُھول سے شرمندہ ہوں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment