Friday 11 April 2014

تیری راہوں میں بھٹکنے کے لیے زندہ ہوں

تیری راہوں میں بھٹکنے کے لیے زندہ ہوں
میں ازل سے ہی تِرے حُسن کا جویندہ ہوں
تیرے دل کی بھی نہ مل پائی مجھے شہریت
کس سے پوچھوں کہ میں کس ملک کا باشندہ ہوں
بھا گئے تھے تیری آنکھوں کے سمندر جن کو
میں اُنہی ڈُوبنے والوں کا نُمائندہ ہوں
دیکھنا ہے تو مجھے ایک نظر دیکھ ہی لے
صُبح کا تارا ہوں، لیکن ابھی تابندہ ہوں
کسی جُوڑے میں سجایا نہ گیا جو مجھ سے
میں قتیلؔ آج بھی اُس پُھول سے شرمندہ ہوں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment