جانچ پرکھ کر دیکھ چکی تُو ہر منہ بولے بھائی کو
کہنے دے اب کوئی سچی بات قتیلؔ شفائی کو
کر دیا بالکل اپنے جیسا مجھ کو اندھے کیوپڈ نے
اپنی شہرت جان رہا ہوں میں اپنی رُسوائی کو
شہرت چاہے کیسی بھی ہو، لوگ توجہ دیتے ہیں
گھبرائی کیوں بیٹھی ہے اب غمخواروں کے نرغے میں
لے آئی ہے محفل میں جب تو اپنی تنہائی کو
سب کو سنائے قصے تُو نے جس کی دھوکا بازی کے
اس جیسا ہی پائے گی تُو اپنے ہر شیدائی کو
سب سے ہنس کر ملنے والی کس نے تجھ کو سمجھا ہے
ناپ رہے ہیں مفت میں لوگ سمندر کی گہرائی کو
پاگل پن تو دیکھو جس دن ڈولی اُٹھنے والی تھی
اپنے ہاتھ سے توڑ دیا اِک دلہن نے شہنائی کو
کیوں اوروں کے نام سے چھپواتا ہے اپنے شعر قتیلؔ
یوں برباد کیا نہیں کرتے اپنی نیک کمائی کو
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment