Sunday 6 April 2014

حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے

حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے
دل سا انگارہ تو پہلے ہی بُجھا رکھا ہے
اے مِرے شہر کی بے رحم زمیں کچھ تو بتا
تُو نے ہر موڑ پہ کیوں سنگِ جفا رکھا ہے
اک تِرا دُکھ ہو تو چہرے پہ بکھیرا جائے
کتنے غم ہیں جنہیں سینے سے لگا رکھا ہے
آپ کا اپنا تو اس میں کوئی پتھر ہی نہیں
کس لیے دوش پہ کُہسار اُٹھا رکھا ہے
تُو مِری آنکھ کے گرداب کے نزدیک نہ آ
اس میں وہ زہر ہے جو تجھ سے چھپا رکھا ہے
رکھ رکھاؤ کے چراغوں کی لویں بُجھ جائیں
اس توقع کی اذیت میں بھی کیا رکھا ہے
میں تِرے رنج کے پتھراؤ سے گھبراتا ہوں
ورنہ اس جسم کو زخموں سے سجا رکھا ہے
تُو مِرے کرب کے احساس سے کب گزرا ہے
یہ تو وہ دُکھ ہے جو دھڑکن میں چھپا رکھا ہے
خود کو اب اتنی اذیت بھی نہ دیجے احمدؔ
سوچیے شدتِ احساس میں کیا رکھا ہے

سید آل احمد

No comments:

Post a Comment