Sunday 6 April 2014

تم مرا دکھ تر و تازہ نہیں رہنے دیتے

تم مِرا دُکھ تر و تازہ نہیں رہنے دیتے
دشت کو ابر تو پیاسا نہیں رہنے دیتے
واہمے نت نئی اشکال بنا لیتے ہیں
ورقِ دل کو بھی سادہ نہیں رہنے دیتے
کتنے بے رحم ہیں یہ ہاتھ کہ فصلِ گل میں
شجر سبز پہ پتا نہیں رہنے دیتے
اب تو کچھ ایسے بچھڑ جاتے ہیں یارانِ کہن
آنکھ میں عکسِ تمنا نہیں رہنے دیتے
میری اچھائیاں آئینہ بنانے والو
کیوں مجھے شہر میں رُسوا نہیں رہنے دیتے
کتنے سفاک طبیعت ہیں شناسا چہرے
ایک لمحے کو بھی تنہا نہیں رہنے دیتے
ہم سے بے درد زمانے میں نہ دیکھے ہوں گے
اپنے ہی گھر کو جو اپنا نہیں رہنے دیتے
اب تِرا نام جفا پیشہ ہوا کے جھونکے
ریگِ صحرا پہ بھی لکھا نہیں رہنے دیتے
اتنے سورج نکل آئے ہیں اُفق پر احمدؔ
زیر دیوار بھی سایہ نہیں رہنے دیتے

سید آل احمد

No comments:

Post a Comment