Sunday 6 April 2014

وہ بھی اٹھا کے سنگ ملامت اداس تھا

وہ بھی اُٹھا کے سنگِ ملامت اُداس تھا
ہم کو بھی دوستی کے تقدس کا پاس تھا
ٹھوکر لگی تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے
اک سنگِ رہگزارِ وفا غرقِ یاس تھا
پگھلا دیا تھا روح کو دوری کی آنچ نے
تیرے دُکھوں کا رنگ بدن کا لباس تھا
تم آ گئے تو لب پہ تبسم بھی آ گیا
ورنہ تو شام ہی سے مِرا دل اُداس تھا
نفرت کی تیز دھارنے شہ رگ ہی کاٹ دی
اتنا خلوص تھا کہ سراپا سپاس تھا
مدت ہوئی جسے پسِ حد نظر چھپے
اس تیرگی کا حل اُسی سورج کے پاس تھا
احمدؔ گھرے ہو آ کے کہاں شورِ شہر میں
تنہائیوں کا دشت تمہیں کتنا راس تھا

سید آل احمد

No comments:

Post a Comment