Sunday 6 April 2014

دشت کو جا تو رہے ہو سوچ لو کیسا لگے گا

دشت کو جا تو رہے ہو سوچ لو کیسا لگے گا
سب ادھر ہی جا رہے ہیں دشت میں میلہ لگے گا
تیر بن کر خیر سے ہر دل پہ جب سیدھا لگے گا
شعر میرا دشمنوں کو بھی بہت اچھا لگے گا
خیر، حشرِ آرزو پر تو تمہارا بس نہیں ہے
آرزو تو کر لو یارو! آرزو میں کیا لگے گا
فصلِ گل جو کر رہی ہے سامنے ہے دیکھ لیجئے
میں کروں گا کچھ تو نام اب میری وحشت کا لگے گا
سرسری انداز سے دیکھو گے تو محفل ہی محفل
غور سے دیکھو گے تو ہر آدمی تنہا لگے گا
زندگی پر غور کرنا چھوڑ دو گے جب شجاعؔ
آہ بھی دے گی مزا اور درد بھی میٹھا لگے گا

شجاع خاور

No comments:

Post a Comment