دشت کو جا تو رہے ہو سوچ لو کیسا لگے گا
سب ادھر ہی جا رہے ہیں دشت میں میلہ لگے گا
تیر بن کر خیر سے ہر دل پہ جب سیدھا لگے گا
شعر میرا دشمنوں کو بھی بہت اچھا لگے گا
خیر، حشرِ آرزو پر تو تمہارا بس نہیں ہے
فصلِ گل جو کر رہی ہے سامنے ہے دیکھ لیجئے
میں کروں گا کچھ تو نام اب میری وحشت کا لگے گا
سرسری انداز سے دیکھو گے تو محفل ہی محفل
غور سے دیکھو گے تو ہر آدمی تنہا لگے گا
زندگی پر غور کرنا چھوڑ دو گے جب شجاعؔ
آہ بھی دے گی مزا اور درد بھی میٹھا لگے گا
شجاع خاور
No comments:
Post a Comment