Sunday, 6 April 2014

مہرباں رات تو دے جاتی ہے خواب ایک سے ایک

مہرباں رات تو دے جاتی ہے خواب ایک سے ایک
دن وہ ظالم ہے کہ ڈھاتا ہے عذاب ایک سے ایک
میری خاموشی سے قائم ہے سوالوں کا بھرم
بولوں تو مجھ کو بھی آتا ہے جواب ایک سے ایک
چھین لی وصل کے دانوں نے فضا فرقت کی
ورنہ پرواز میں رہتے تھے عقاب ایک سے ایک
خوب جاہل ہوں کہ پڑھتا ہوں فقط چہروں کو
گو کتب خانے میں رکھتا ہوں کتاب ایک سے ایک
ہم نے ہستی سے ہی کھولا ہے طلسمِ ہستی
اس حکایت میں میاں بڑھ کے باب ایک سے ایک
سانس لیتے ہیں حقیقت کی عملداری میں
خواب ہم دیکھتے ہیں پھر بھی جناب ایک سے ایک
آج کل تو خس و خاشاک کے بھی لالے ہیں
ورنہ کیا دیکھے نہیں ہم نے گلاب ایک سے ایک
چھوڑ یہ بات، کرو اور کوئی بات شجاعؔ
دیکھ رکھا ہے یہاں عالی جناب ایک سے ایک

شجاع خاور

No comments:

Post a Comment