مہرباں رات تو دے جاتی ہے خواب ایک سے ایک
دن وہ ظالم ہے کہ ڈھاتا ہے عذاب ایک سے ایک
میری خاموشی سے قائم ہے سوالوں کا بھرم
بولوں تو مجھ کو بھی آتا ہے جواب ایک سے ایک
چھین لی وصل کے دانوں نے فضا فرقت کی
خوب جاہل ہوں کہ پڑھتا ہوں فقط چہروں کو
گو کتب خانے میں رکھتا ہوں کتاب ایک سے ایک
ہم نے ہستی سے ہی کھولا ہے طلسمِ ہستی
اس حکایت میں میاں بڑھ کے باب ایک سے ایک
سانس لیتے ہیں حقیقت کی عملداری میں
خواب ہم دیکھتے ہیں پھر بھی جناب ایک سے ایک
آج کل تو خس و خاشاک کے بھی لالے ہیں
ورنہ کیا دیکھے نہیں ہم نے گلاب ایک سے ایک
چھوڑ یہ بات، کرو اور کوئی بات شجاعؔ
دیکھ رکھا ہے یہاں عالی جناب ایک سے ایک
شجاع خاور
No comments:
Post a Comment