Sunday 6 April 2014

گھٹن غبار کو تسخیر کرنے والا تھا

گھٹن غبار کو تسخیر کرنے والا تھا
میں اب ہواؤں کو زنجیر کرنے والا تھا
اُسی کو خواب میں دیکھا تھا رات بھر میں نے
جو میرے خواب کی تعبیر کرنے والا تھا
ہنر کے آہنی سانچے میں ڈھل کر اب کے
وہ میرے عیب کی تشہیر کرنے والا تھا
وہ اک خیال مجسم تھا جو نہ ظاہر تھا
میں اس خیال کو تصویر کرنے والا تھا
وہ معرفت کی حدوں سے گزار کر مجھ کو
اسیرِ زلفِ گرہ گیر کرنے والا تھا
کہ اب کے خود سے نپٹنے کے واسطے یارو
میں ایک اور ہی تدبیر کرنے والا تھا

لیاقت جعفری

No comments:

Post a Comment