Sunday, 6 April 2014

کوئی سمجھاؤ دریا کی روانی کاٹتی ہے

کوئی سمجھاؤ، دریا کی روانی کاٹتی ہے
کہ میرے سانس کو، تشنہ دہانی کاٹتی ہے
میں باہر تو بہت بہتر ہوں، پر اندر ہی اندر
مجھے کوئی بلائے ناگہانی کاٹتی ہے
میں دریا ہوں، مگر کتنا ستایا جا رہا ہوں
کہ بستی روز آ کے میرا پانی کاٹتی ہے
زمیں پر ہوں مگر کٹ کٹ کے گرتا جا رہا ہوں
مسلسل، اک نگاہِ آسمانی کاٹتی ہے
میں کچھ دن سے اچانک پھر اکیلا پڑ گیا ہوں
نئے موسم میں اک وحشت پرانی، کاٹتی ہے
کہ راج مر چکا ہے اور شہزادے جواں ہیں
یہ رانی، کس طرح اپنی جوانی کاٹتی ہے
نظر والو! تمہاری آنکھ سے شکوہ ہے مجھ کو
زباں والو! تمہاری بے زبانی کاٹتی ہے

لیاقت جعفری

No comments:

Post a Comment