غم کی تشہیر نہ کر، خود کو تماشا نہ بنا
دیکھ، اس دردِ محبت کو فسانہ نہ بنا
بے ثمر ہی سہی، شادابئ جاں کا ہیں سبب
خواہشیں مار کے یوں ذات کو صحرا نہ بنا
وقت بدلے گا، بدلتا ہے، کہاں رُکتا ہے
حوصلے ہار کے یوں زیست کو ایذا نہ بنا
توڑ سکتا ہوں جسے، نہ ہی نبھا سکتا ہوں
مجھ سے اس درجہ انوکھا بھی تو رشتہ نہ بنا
موجِ پُر شور حوادث کا پتہ دیتی ہے
دیکھ ناداں! لبِ ساحل تو گھروندا نہ بنا
شوخ نظروں سے تکلم تو ہے عادت اُس کی
ایسی عادت کو محبت کا حوالہ نہ بنا
جس کے انجام پہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں
ایسی بے کار مسافت کو تمنا نہ بنا
پھونک ڈالے نہ کہیں زینؔ! نشیمن تیرا
خواہشِ لطفِ محبت کو تو شعلہ نہ بنا
دیکھ، اس دردِ محبت کو فسانہ نہ بنا
بے ثمر ہی سہی، شادابئ جاں کا ہیں سبب
خواہشیں مار کے یوں ذات کو صحرا نہ بنا
وقت بدلے گا، بدلتا ہے، کہاں رُکتا ہے
حوصلے ہار کے یوں زیست کو ایذا نہ بنا
توڑ سکتا ہوں جسے، نہ ہی نبھا سکتا ہوں
مجھ سے اس درجہ انوکھا بھی تو رشتہ نہ بنا
موجِ پُر شور حوادث کا پتہ دیتی ہے
دیکھ ناداں! لبِ ساحل تو گھروندا نہ بنا
شوخ نظروں سے تکلم تو ہے عادت اُس کی
ایسی عادت کو محبت کا حوالہ نہ بنا
جس کے انجام پہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں
ایسی بے کار مسافت کو تمنا نہ بنا
پھونک ڈالے نہ کہیں زینؔ! نشیمن تیرا
خواہشِ لطفِ محبت کو تو شعلہ نہ بنا
اشتیاق زین
No comments:
Post a Comment