محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دَم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دَم توڑ دیا
ہر مسرت، غمِ دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دَم توڑ دیا
اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی
آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑ دیا
جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
اُن محبت کی روایات نے دَم توڑ دیا
جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دَم توڑ دیا
ہائے آدابِ محبت کے تقاضے ساغرؔ
لب ہلے اور شکایات نے دَم توڑ دیا
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment