Sunday 6 April 2014

کبھی وہ آنکھ کبھی فیصلہ بدلتا ہے

کبھی وہ آنکھ، کبھی فیصلہ بدلتا ہے
فقیہِ شہر سفینہ بدست چلتا ہے
وہ میری آنکھیں جنہیں تم نے طاق پر رکھا
انہی میں منزلِ جاں کا سراغ ملتا ہے
اب اگلے موڑ کی وحشت سے دل نہیں ہارو
زوالِ شام سے منظر نیا نکلتا ہے
مجھے سوال کی دہلیز پار کرنی ہے
یہ دیکھنے کہ ارادہ کہاں بدلتا ہے
شکستِ ساعتِ جاں ورثۂ زمیں تو نہیں
بھنور کا پاؤں سوادِ سفر نکلتا ہے
ہزیمتوں کی صلیبوں کو شب چراغ کرو
کہ آندھیوں کا سفینہ یونہی سنبھلتا ہے
گلی گلی میں خموشی کواڑ پیٹے ہے
یہ کون ہے جو نئی کونپلیں مسلتا ہے
مِری زباں پہ کوئی ذائقہ ٹھہر نہ سکا
کہ مجھ میں اور کوئی پیرہن بدلتا ہے

کشور ناہید

No comments:

Post a Comment