Sunday, 6 April 2014

آؤ کسی اداس ستارے کے پاس جائیں

آؤ، کسی اداس ستارے کے پاس جائیں
دریائے آسماں کے شکارے کے پاس جائیں
اس سے بھی پوچھ لیں کہ گزرتی ہے کس طرح
یارو کبھی کسی کے سہارے کے پاس جائیں
مٹھی میں لے کے دل میں بٹھا لیں جو ہو سکے
اک ناچتی کِرن کے شرارے کے پاس جائیں
اس مہ جبیں کی یاد بھی باقی نہیں رہی
کس منہ سے چاندنی کے نظارے کے پاس جائیں
ناپختگانِ عشق عجب وسوسے میں ہیں
دیکھیں یہیں کہیں سے کہ دھارے کے پاس جائیں
اس کش مکش میں سارے ادیبوں کا ذہن ہے
دل کی طرف چلیں کہ ادارے کے پاس جائیں
یا جا کے چھپ رہیں کسی شیشے کے قصر میں
یا عصرِ انقلاب کے آرے کے پاس جائیں 

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment