بند باہر سے مری ذات کا در ہے مجھ میں
میں نہیں خود میں، یہ اک عام خبر ہے مجھ میں
اک عجب آمد و شُد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ، برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں
ہے مری عمر، جو حیران تماشائی ہے
کیا ترستا ہوں کہ باہر کے کسی کام آئے
وہ اک انبوہ کہ بس خاک بسر ہے مجھ میں
ڈوبنے والوں کے دریا ملے پایاب مجھے
اس میں اب ڈوب رہا ہوں جو بھنور ہے مجھ میں
در و دیوار تو باہر کے ہیں ڈھینے والے
چاہے رہتا نہیں میں، پر مرا گھر ہے مجھ میں
میں جو پیکار میں اندر کی ہوں بے تیغ و زِرہ
آخرش کون ہے جو سینہ سِپر ہے مجھ میں
معرکہ گرم ہے بے طَور سا کوئی ہر دَم
نہ کوئی تیغ سلامت، نہ سِپر ہے مجھ میں
زخم ہا زخم ہوں اور کوئی نہیں خوں کا نشاں
کون ہے وہ جو مرے خون میں تر ہے مجھ میں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment