Sunday 6 April 2014

موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں

موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں
دریا تِرے وجود کا حصہ تو میں بھی ہوں
اے قہقہے بکھیرنے والے، تُو خوش بھی ہے
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں
مجھ میں اور اس میں صرف مقدر کا فرق ہے
ورنہ وہ شخص جتنا ہے اتنا تو میں بھی ہوں
اس کی تو سوچ، دنیا میں جس کا کوئی نہیں
تُو کس کے لیے اداس ہے تیرا تو میں بھی ہوں
اک ایک کر کے ڈُوبتے تارے بُجھ گئے
مجھ کو بھی ڈُوبنا ہے ستارہ تو میں بھی ہوں
اک آئینے میں دیکھ کے آیا ہے یہ خیال
میں کیوں نہ اس سے کہہ دوں کہ تجھ سا تو میں بھی ہوں

تیمور حسن تیمور​

No comments:

Post a Comment