نام دینا اسے مشکل ہے بہت رہبر کا
مثل صیاد جو دشمن ہوا بال و پر کا
دشت گردی میں سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی
ڈررہا ہوں کہ پتہ بھول نہ جاؤں گھر کا
سنگ در میں وہ کشش ہے کہ جبیں سائی سے
غیر ممکن ہے کسی طرح اٹھانا سر کا
زور جس کا نہ چلا وقت کی بے مہری پر
جائزہ لیتا رہا شہر کے پس منظر کا
ہے فقط حُسنِ تعاون میں بھلائی سب کی
ورنہ طاقت کا بھروسا ہے نہ مال و زر کا
سرزمیں ہو گئی اک ناز اٹھانے کی جگہ
روز ہوتا ہے تماشا کسی جادوگر کا
آنکھ بھر آئی دھڑکنے لگا دل کیوں ناظرؔ
خواب میں دیکھ لیا ہو نہ سماں محشر کا
عبداللہ ناظر
No comments:
Post a Comment