کوئی افواہ سنا جھوٹی خبر دے مجھ کو
یاس کی رات میں امیدِ سحر دے مجھ کو
کیوں ملا دیتا ہے مٹی میں محبت کے گہر
چند آنسو کبھی اے دیدۂ تر دے مجھ کو
آئینہ سامنے رکھا ہے اندھیرے جیسا
خود کو پہچان سکوں ایسی نظر دے مجھ کو
مجھ سے دو چار قدم دور نہیں ہے منزل
ایک آواز سرِ راہ گزر دے مجھ کو
وعدۂ یار ہے تمہیدِ ملاقات، مگر
شوقِ وافر کہیں بے صبر نہ کر دے مجھ کو
بوجھ اتنا ہے اٹھایا نہیں جاتا دل سے
دینے والے نہ کبھی دولت و زر دے مجھ کو
دیکھ میں بیٹھ گیا راہِ وفا میں ناظرؔ
اور مجبور نہ کر زادِ سفر دے مجھ کو
عبداللہ ناظر
No comments:
Post a Comment