جینے میں یوں تو کون سی جینے کی بات ہے
پھر بھی عجیب چیز، فریبِ حیات ہے
کیا کر گیا ہے آ کے تُو اک مرتبہ یہاں
تیرے بغیر گھر میں نہ دن ہے نہ رات ہے
اے دل میں آنے والے، مبارک ترا قدم
مٹ مٹ کے بنتی جاتی ہیں صد رنگ صورتیں
کیا دل فریب سلسلۂ ممکنات ہے
شیشہ تھا، گر کے ٹوٹ گیا اتفاق سے
اے دوست! یہ بھی کیا، کوئی کرنے کی بات ہے
دریا تو تھک بھی جاتے ہیں بہہ بہہ کے اے عدمؔ
دل ہے کہ ماورائے چناب و فرات ہے
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment