Friday 11 April 2014

جینے میں یوں تو کون سی جینے کی بات ہے

جینے میں یوں تو کون سی جینے کی بات ہے
 پھر بھی عجیب چیز، فریبِ حیات ہے
کیا کر گیا ہے آ کے تُو اک مرتبہ یہاں
تیرے بغیر گھر میں نہ دن ہے نہ رات ہے
اے دل میں آنے والے، مبارک ترا قدم
ڈرتا ہوں میں یہ انجمنِ سانحات ہے
مٹ مٹ کے بنتی جاتی ہیں صد رنگ صورتیں
کیا دل فریب سلسلۂ ممکنات ہے
شیشہ تھا، گر کے ٹوٹ گیا اتفاق سے
اے دوست! یہ بھی کیا، کوئی کرنے کی بات ہے
دریا تو تھک بھی جاتے ہیں بہہ بہہ کے اے عدمؔ
دل ہے کہ ماورائے چناب و فرات ہے

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment