Tuesday, 1 April 2014

جنوں کا ایسا طریقہ بنے تو بات بنے

جنوں کا ایسا طریقہ بنے تو بات بنے
کہ تیرے ساتھ ہی قصہ بنے تو بات بنے
وہ شہر بھر کو فسانے سُناتا پِھرتا ہے
ہمارے سامنے سچا بنے تو بات بنے
تمہارے چاک پہ پُتلے خطا کے بنتے ہیں
تمہارے چاک پہ بندہ بنے تو بات بنے
رہو تو دِل میں رہو شہر میں کہیں نہ رہو
تمہارے ساتھ یہ رشتہ بنے تو بات بنے
میں خود کو مان لوں پرتَو کسی حقیقت کا
نہ عکس شیشے میں اُلٹا بنے تو بات بنے
گزر رہے ہیں جہاں سے ہم آج پہلی بار
ہمارے بعد یہ رَستہ بنے تو بات بنے
اُسے نکال کے لاؤ حجاب سے باہر
تماشبین، تماشا بنے تو بات بنے

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment