صراحی جام سے ٹکرائیے، برسات کے دن ہیں
حدیثِ زندگی دُہرائیے، برسات کے دن ہیں
سفینہ لے چلا ہے کس مخالف سمت کو ظالم
ذرا ملّاح کو سمجھائیے، برسات کے دن ہیں
کسی پُرنور تمہت کی ضرورت ہے گھٹاؤں کو
طبیعت گردشِ دوراں کی گھبرائی ہوئی سی ہے
پریشاں زُلف کو سُلجھائیے، برسات کے دن ہیں
بہاریں ان دنوں دشتِ بیاباں میں بھی آتی ہیں
فقیروں پر کرم فرمائیے، برسات کے دن ہیں
یہ موسم شورشِ جذبات کا مخصوص موسم ہے
دلِ نادان کو بہلائیے، برسات کے دن ہیں
سہانے آنچلوں کے ساز پر اشعار ساغرؔ کے
کسی بے چین دُھن میں گائیے، برسات کے دن ہیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment