Wednesday 9 April 2014

میں سہوں کرب زندگی کب تک

میں سہوں کربِ زندگی کب تک
رہے آخر تری کمی کب تک
کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سُونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک
اب فقط یاد رہ گئی ہے تری
اب فقط تری یاد بھی کب تک
میں بھلا اپنے ہوش میں کب تھا
مجھ کو دنیا پکارتی کب تک
خیمہ گاہِ شمال میں آخر
اس کی خُوشبو رَچی بسی کب تک
اب تو بس آپ سے گِلہ ہے یہی
یاد آئیں گے آپ ہی کب تک
مرنے والو! ذرا بتاؤ تو
رہے گی یہ چلا چلی کب تک
جس کی ٹُوٹی تھی سانس آخرِ شب
دفن وہ آرزو ہوئی کب تک
دوزخِ ذات باوجود ترے
شبِ فرقت نہیں جلی کب تک
اپنے چھوڑے ہوئے محلوں پر
رہا دورانِ جاں کنی کب تک
نہیں معلوم میرے آنے پر
اس کے کُوچے میں لُو چلی کب تک

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment