حیرتِ عشق نہیں، شوقِ جنوں گوش نہیں
بے حجابانہ چلے آؤ، مجھے ہوش نہیں
رِند جو مجھ کو سمجھتے ہیں انہیں ہوش نہیں
میکدہ ساز ہوں میں میکدہ بردوش نہیں
کہہ گئی کان میں آ کر تیرے دامن کی ہوا
صاحبِ ہوش وہی ہے کہ جیسے ہوش نہیں
کبھی ان مَدھ بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں
محو تسبیح تو سب ہیں، مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہے، مگر ہوش نہیں
مِل کے جس دن سے گیا کوئی ایک بار جگرَ
مجھ کو یہ وہم ہے، جیسے میرا آغوش نہیں
بے حجابانہ چلے آؤ، مجھے ہوش نہیں
رِند جو مجھ کو سمجھتے ہیں انہیں ہوش نہیں
میکدہ ساز ہوں میں میکدہ بردوش نہیں
کہہ گئی کان میں آ کر تیرے دامن کی ہوا
صاحبِ ہوش وہی ہے کہ جیسے ہوش نہیں
کبھی ان مَدھ بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں
محو تسبیح تو سب ہیں، مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہے، مگر ہوش نہیں
مِل کے جس دن سے گیا کوئی ایک بار جگرَ
مجھ کو یہ وہم ہے، جیسے میرا آغوش نہیں
جگر مراد آبادی
جگر مراد آبادی اردو شاعری کا انمول موتی هے
ReplyDeleteدوسرا شعر غلط لکھا ہوا ہے ۔
ReplyDeleteمیکدہ ساز ہوں میں میکدہ بردوش نہیں
تصحیح کے لیے شکرگزار ہوں، درستگی کر دی گئی ہے
Delete