Saturday 5 April 2014

ہم پیاسوں ‌کے مے خانے میں‌ یوں ‌جام چلے ہے

ہم پیاسوں ‌کے مے خانے میں‌ یوں ‌جام چلے ہے
آنکھوں‌ سے چھلک جائے ہے جب شام ڈھلے ہے
کیا پوچھو ہو ہم خانہ خرابوں کی کہانی
مٹی کا دِیا🪔 رُخ ‌پہ ہواؤں ‌کے جلے ہے
تھک جائیں ‌تو سو جائیں ‌کسی پیڑ‌ کے نیچے
ہم خانہ بدوشوں کا یونہی کام چلے ہے
ڈیوڑھی سے تِری آج میں ‌کچھ لے کے ٹلوں گا
ٹلتی ہی چلی جائے ہے، جب بات ٹلے ہے
ہم باتیں ‌بھی کر لیں ‌ہیں ‌سرِ‌ بزم کسی سے
آنکھوں سے محبت میں‌ بڑا کام چلے ہے
چمکے تو ہے سورج کی طرح حسن تمہارا
لیکن یہ سمجھ رکھیو کہ سورج بھی ڈھلے ہے
اے سروِ سر اَفراز! ذرا دیکھ کے چلیو
اک شہرِ‌ خموشاں ‌تِرے قدموں کے تلے ہے
دیوانے کے ہاتھوں میں‌ یہ مٹی ہے کہاں کی
چومے ہے کبھی اور کبھی آنکھوں ‌سے مَلے ہے
جو جاوے ہے کوچے میں‌ تِرے آوے ہے گھائل
تلوار کھنچے ہے، نہ کوئی تیر چلے ہے
دیوانے کی یہ بات، بڑی بات ہے پیارے
سب پوچھیں‌ ہیں ‌لیکن وہ تِرا نام نہ لے ہے
ماحول کا شکوہ کبھی اقبالؔ نہ کیجو
وہ پھول بھی مہکے ہے جو کانٹوں میں‌ پلے ہے

اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment