Sunday 6 April 2014

کیوں لئے پھرتی ہے اے تیز ہوا رہنے دے

کیوں لئے پھرتی ہے اے تیز ہوا! رہنے دے
گرد ہوں میں، مجھے راہوں میں‌ پڑا رہنے دے
پھر جلوں گا تو اندھیروں کو بھی زحمت ہو گی
بجھ گیا ہوں تو مجھے یوں ہی بجھا رہنے دے
دھوپ ہوں شب کے نشیبوں میں اتر جاؤں گا
بس ذرا دیر پہاڑوں پہ بچھا رہنے دے
مجھ کو ہونے دے یہ احساس کہ میں زندہ ہوں
اک نہ اک زخم مِرے دل کا ہرا رہنے دے
کچھ نہیں ‌ہے تو سرابوں کا چھلاوا ہی سہی
کچھ تو آنکھوں میں‌ مِری خواب نما رہنے دے
عکس کا اپنا کوئی عکس نہیں ہو سکتا
ایک پرچھائیں کو پیکر نہ بنا رہنے دے
بے سبب اتنی وضاحت کی ضرورت کیا ہے
شادؔ، اب اپنی کہانی نہ سُنا، رہنے دے

خوشبیر سنگھ شاد

No comments:

Post a Comment