Sunday, 6 April 2014

دکھ کی دیوار تلے روح کو سستانے دو

دکھ کی دیوار تلے روح کو سستانے دو
یہ جو طوفاں سا امڈ آیا ہے، رک جانے دو
مدتوں بعد تو پلٹا ہے بدل کر ملبوس
گھر کا دروازہ کھلا رکھو، اسے آنے دو
وقت بیمار مسافر ہے، گزر جائے گا
رائیگاں ایک بھی لمحہ نہ کوئی جانے دو
اک تہی دست ہے اور ایک مقدر کا دھنی
کتنے مقبول ہوئے شہر میں دیوانے دو
عمر بھر کون سا برسا ہے کرم کا بادل
گھر میں آتا ہے جو سیلابِ بلا، آنے دو
آئینہ سامنے رہنے دو ابھی ماضی کا
سلوٹیں دیکھ کے پیشانی پہ پچھتانے دو
محبسِ ربط سے باہر تو نہیں جا سکتا
قید جتنا بھی رکھو اشک تو تھم جانے دو
زندگی کرب کے سانچے میں ڈھلی جاتی ہے
اب تو اس پیکرِ بے مثل کو گھر آنے دو

سید آل احمد

No comments:

Post a Comment